تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین، علی گڑھ
حوزہ نیوز ایجنسی | مقصد نزول قرآن پاک سے پہلے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر نزول قرآن کریم کیا ہے؟ نزول قرآن رب رحیم کی جانب سے وحی کے ذریعے سے آیات قرآنی کا تاجدار انبیاء، ختم المرتبت حضرت محمد مصطفٰی (ص) پر اترنے کو نزولٍ قرآن کہتے ہیں۔
کاش کے ہم سبھی سمجھ جائیں
عظمت و شان و شوکتٍ قرآں
ہوتی کیا آساں زندگی اپنی
مانتے جو نصیحتٍ قرآں
مقصد نزول قرآن پاک سے پہلے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر نزول قرآن کریم کیا ہے؟ نزول قرآن رب رحیم کی جانب سے وحی کے ذریعے سے آیات قرآنی کا تاجدار انبیاء، ختم المرتبت حضرت محمد مصطفٰی (ص) پر اترنے کو نزولٍ قرآن کہتے ہیں۔ نزول قرآن کا مطلب مادی اور جسمانی نزول نہیں ہے۔ اسی وجہ سے مسلمان دانشوروں نے قرآن کے بارے میں روحانی معنوں، نزول حقیقی نزول اور مرتبہ و مقام کے نزول کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔
نزول قرآن کریم کے حوالے سے سورۃ الاسراء کی آیات مبارکہ و شریفہ نمبر 106-107 میں ارشاد باری تعالٰی ہو رہا ہے "ہم نے قرآن کو متفرق بنا کر نازل کیا ہے۔۔۔۔۔اس کے پہلے علم دے دیا گیا ہے"
یہ ایک حقیقت ہے کہ مالک کائنات نے کل قرآن کا علم رسول اگرمؐ کو دے دیا تھا اور شبٍ قدر میں اسے لوحٍ محفوظ سے نازل بھی کر دیا تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امّت کے لئے اس کی آیات کا نزول 23 سال تک برابر ہوتا رہا ہے اور ایسا نہیں ہوا کہ بغیر تنزیل الٰہی کے رسول اکرمؐ جب چاہیں اور جس آیت کو چاہیں پڑھ کر سنا دیں یا اس کی تبلیغ شروع کر دیں آپ مکمل طور پر وحی الٰہی کے پابند تھے اور جس طرح آیات کا نزول ہوتا تھا اسی طرح پڑھ کر سنا دیتے تھے تاکہ قوم سمجھتی بھی رہے اور اسی کے مطابق عمل بھی کرتی رہے۔
رب ذوالجلال ولاکرام، خالق کائنات و رب العالمین نے اپنے اشرف المخلوقاتٍ انسان کی دونوں جہاں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے عین وقت کے لحاظ سے انبیاء کرام، پیغمبران عظام کو مبعوث فرمایا اور ان کو مالک مختار، جس کے قبضے میں حیات و موت ہے،اسی کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے مختلف آسمان صحائف کو نازل فرمایا۔ تحقیقات نزول قرآن پاک سے اخذ کیا کہ روایات کے مطابق 140 آسمانی صحائف مختلف انبیاء کرام پر نازل ہوئے اور ان تمام آسمانی صحائف میں پروردگار عالم نے دین و دنیا کہ تمام حقائق و دقائق، اسرار و رموز اور علوم و فنون کو ایک جگہ جمع فرمایا یعنی مکمل فلکی صحائف کے علوم و فنون رب العزت نے اپنی آخری و تا قیامت تک رہنے والی کتاب، قرآن مجید حکیم میں جمع فرمایا۔
دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی، حفظ، مطالعہ اور اس پر تحقیقات کی جانے والی کتاب، قرآن کریم ہے۔ یہ حق و باطل میں فرق بتاتا ہے۔ ذکر و نور، موعظت و رحمت، تذکرہ و مبارک، بشیر و کمالات و نذیر، بیان و بلاغ، صدق و یقین، حق و مبین، وحی و علم، امر و قول، عزیز و حکیم ہے۔ تاقیامت ساری انسانیت کے لئے سر چشمہ ہدایت، دستور حیات و ضابطہ زندگی، صراط مستقیم، راہ فردوس، دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کی ضامن، دونوں زندگی میں سعادت، ہر مشکل و ہر زمانے کا سوال و جواب، مشکل معاملات کا حل، نور، شفاء، روحانی غذا، خالق و مخلوق کی مناجات، محبوب و محب کا راز و نیاز تاقیامت تک رہنے والی کتاب ہے۔
جب کتاب کا ذکر ہوا تو اکا نام قرآن کیسے رکھا گیا اس کی بھی معلومات سے مستفید ہو جائیں۔ جاحظ کا قول ہے کہ اہلٍ عرب نے اجمالاً اور تفصیلاً اپنے کلام کے جو نام رکھتے تھے خداوند کریم نے اپنی کتاب کے نام عرب کے برخلاف مقرر فرمایا یعنی خدا نے جملتہً اپنی کتاب کا نام "قرآن" کا انتخاب کیا۔ جس طرح عرب مجموعی کتاب کو دیوان کہتے تھے اور خدائے پاک نے اپنی کتاب کے حصّہ کا نام "سورۃ" مقرر فرمایا جیسا کہ اہلٍ عرب "قصیدہ" نال رکھتے تھے اور چھوٹے سے جملہ کا نام "آیتہ" بمقابلہ "بیت" رکھا۔ پھر آیت کے آخری حصّہ کو "فاصلتہ" کا نام "قافیہ" کے بجائے عطا کیا۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ابوالمعالی بن عبدالملک اپنی کتاب "البرہان" میں لکھتا ہے کہ پروردگار عالم نے اپنی کتاب کا نام 55 رکھا ہے اور اس کی وجہ تسمیہ بھی ہے۔ قرآن حکیم کے 55 نام درج ذیل ہیں:
کتاب اور مبین، قرآن اور کریم، کلام، نور، ہدیٰ اور رحمتہ، فرقان، شفاء، موعظتہ، شٍفاءَلٍّما فی الصُّدُور، ذکر اور مبارک، علی، حکمتہ، حکیم، مُھیمٍن، حبل، صراط مستقیم، قیم قول و فعل، بناءٍ عظیم، احسن الحدیث مثانی، اور متاشابہ، تنزیل، روح، وحی، عربی، بصائر، بیان، علم، حق، ہادی، عجب، تذکرہ، عروۃ الوثققیٰ، صدق، عدل، امر، منادی، بشریٰ، مجی، زبور، بشیرا و نذیر، رزیز، اور بلاغ۔ خواہش قلب تو یہ ہے کہ اس سب ناموں کی وجہہ تسمیہ بھی تحریر کروں لیکن مقصد عنوان مکمل نہیں ہو پائے گا اور مضمون مزید طویل ہو جائے گا۔ ان شاءاللہ آئندہ مضمون میں۔۔۔۔۔
خالق کائنات کا آلٍ عمران کی آیت مبارکہ نمبر 264 میں واضح ارشاد ہو رہا ہے "کیا وہ قرآن مبین میں غور و فکر اور تدبر و تفکر نہیں کرتے۔" لفظ 'تدبر' کا جائزہ کریں۔ اس کا معنی و مطلب ہوتا ہے، ایسا حاوی، وزنی و محیط غور و فکر کرنا جو الفاظ و حرف کی تہہ اور اس کے پوشیدہ معانی و مقاصد کی طرف رہنمائی کرے۔ اسی وجہ سے نزول قرآن حق کا اہم مقصد تدبرٍ آیات ہے۔ خداوند رحیم کا ارشاد ہو رہا ہے "قرآن بلاغ ایسی کتاب ہے، جس کو ہم نے نازل کیا ہے، بابرکت ہے، تاکہ وہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں اور عقل و خرد اس سے نصیحت حاصل کریں۔"
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں "بخدا ! قرآن صدق کا تدبر کرنا، اس کے حروف کو یاد کر لینا اس کے مقصد کو ضائع کر دینا نہیں ہے، یہاں تک کوئی کہتا ہے میں نے مکمل قرآن عروۃ الواقیٰ نہ اس کے اخلاق میں نظر آتا ہے اور نہ ہی اس کے کردار سے عیاں ہوتا ہے۔" ایک کتاب میں ذکر ہے کہ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ "قران حکمتہ نازل ہوا ہے تاکہ اس پر تدبر کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، پس تم اس کی تلاوت کو عمل بنا لو (مدارج الساکین)
نویں سابق صدر (دوران 1992-1997) جمہوریہ ہند، ڈاکٹر شنکر دیال شرما جنہوں نے یونیورسٹی آف کیمبرج سے پی ایچ ڈگری حاصل کی تھی انھوں نے قرآن کریم کا مطالعہ کچھ اس طرح کیا کہ ان کو مقصد نزول قرآن پاک سمجھ میں آگیا۔ آپ نے ایک نظم لکھی۔ شنکر دیال شرما کے ذریعہ لکھی گئی نظم آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے لیکن امت محمدی کی فکر و احساس کو جنبش دینے سے قاصر رہی۔ قرآن حکیم کے حوالے سے قرآن حکیم کے سلسلے میں مسلمانوں کے بارے میں ان کے تاثرات و خیالات کو سمجھیں:
عمل کی کتاب تھی
دعا کی کتاب بنا دیا
سمجھنے کی کتاب تھی
پڑھنے کی کتاب بنا دیا
زندوں کا دستور تھا
اس کو لا علموں کے ہاتھ تھما دیا
تسخیر کائنات کا درس دینے آئی تھی
صرف مدرسوں کا نصاب بنا دیا
مردہ قوموں کو زندہ کرنے آئی تھی
مردوں کو بخشوانے پر لگا دیا
اے مسلمانوں! یہ تم نے کیا کیا؟
قرآن مجید جزدان میں نہ رہے۔ یہ بخشش، رحمت، مغفرت و نجات کا ذریعہ ہے۔ اسے طاق پر نہ رکھیں۔ گرد آلود نہ ہونے دیں بلکہ قرآن پاک 365 دن ہماری نظروں سے گزرتا رہے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ہماری زندگی کی کتاب ہے۔ اس سے ہماری زندگی و آخرت کا تعلق ہے۔ ایسی کتاب نہیں ہے جب کوئی مر جائے تو اس غرض سے کھولیں اور یہ سوچ کر پڑھیں کہ مرحوم کو ثواب ہوگا اور جنت میں اعلٰی مقام بُک ہو گئی۔
غور طلب بات ہے کہ آئمہ معصومین علیہم السلام نے قرآن کی تلاوت کرنے کا طریقہ بتایا، صرف بتایا ہی نہیں بلکہ اس پر عمل بھی کیا۔ امام علیہ السلام جب کسی آیت رحمت سے گزرتے تو ٹھہرتے اور خدائے رحمٰن سے کہتے کہ اس آیت میں مجھ کو بھی شامل رکھنا۔ پروردگار جس طرح تو نے بتایا کہ وہ نیک، صالح، ایمان، زاہد، صابر، شاکر، نیک عمل کرنے والے، خالص بندے، جن کو تونے علم عطاء فرمائے اور جو تیرا پسندیدہ بندہ ہے۔ اور جب کبھی آیت غضب سے گزرتے، وہاں رُک کر آواز دیتے تھے۔ اے پروردگار اپنی غضب سے مجھ کو محفوظ رکھنا۔ حالانکہ کے آپؑ معصوم تھے۔ ان کی منزلت، عظمت اور فضیلت ہم لوگوں سے لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ بہتر و بلند ہے۔ یہ مسئلہ سمجھنے کا ہے کہ پڑھنے کے معنی یہ ہیں کہ جب رحمت کی منزل آئے تو رحمت کے امیدوار ہو جائیں اور جب غضب کی منزل آئے تو رب ذوالجلال کے غضب سے پناہ مانگیں تاکہ خوف خدا بھی رہے اور امید بھی رہے۔ پوری زندگی کا کل خلاصہ یہی ہے کہ انسان ایسی زندگی گزارے کہ نہ خوف سے بے خوف ہونے پائے اور نہ رحمت خدا سے مایوس ہونے پائے۔
اب اس جملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ یہی عالم کے علم کا، مومن کے ایمان کا، قاری قرآن کی تلاوت کا، حافظ قرآنکا، مترجم قرآنکا، مفسر قرآن کا، پیغمبر محمدی کی امتی ہونے کا اور یہی آئمہ معصومین علیہم السلام ہونے کا تقاضہ ہے کہ پڑھیں، پڑھائیں اور پڑھنے کا اصل طریقہ بتائیں اور اپنائیں۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان اس کائنات کا اپنے علم و ادراک، عقل و دانائی، دولت و ثروت، اور قوت و کمال کی بنیاد پر بادشاہ اور شہنشاہ دکھائی دیتا ہے۔ اتنی زیادہ ترقی، قوت، طاقت، تکبر، اور حاکمیت کی وجہ سے پھسلنے اور برائیوں کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ عدل و انصاف و حقوقٍ انسانی کی پامالی ہونے لگتی ہے۔ ظلم کمزوروں پر بڑھ جاتا ہے جس کی تاریخ گواہ ہے۔ اپنی اشرف المخلوقات کی حفاظت، نشوونما کی خاطر رب العالمین نے اپنا کلام، قرآن عطاء کیا ہے۔ اب خلق کے لئے ضروری ہے کہ خلاق کے قرآن کریم پرھے، سمجھے اور بار بار اس میں غور و فکر کرے تاکہ وہ اپنی انسانیت کی حقیقت کو پا جائے اور نزول قرآن کو بھی بخوبی آشنائی ہو جائے اور دوسروں کو بھی اس آفاقی تعلیمات سے حقیقی معنوں، طریقوں و آداب سے آگاہ کرے۔
مقصد نزول کی عظمت کو سمجھیں کہ رب العالمین و خالق کائنات نے اپنے مہینے، رمضان المبارک میں نازل کیا ہے۔ آپ یہ گمان نہ کریں کہ قرآن رمضان میں آیا تھا۔ رمضان رخصت ہوگیا تو قرآن حکیم بھی روانہ ہو گیا۔ رمضان کے جانے سے کیا جائے گا۔ جب حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے 11 ہجری میں جانے سے قرآن مجید نہیں گیا تو کیا اب 1445 ہجری میں جائے گا۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی حفاظت خود اپنے ذمہ لیا ہے۔ لہٰذا ہمارا رابطہ جیسے اہلبیت علیہم السلام، قرآن ناطق سے ہے ویسا ہی رابطہ قرآن کریم، قرآن صامت سے ہے۔
یہ ہے اللہ کا کلام مبین
جان لو اس سے عظمت قرآں
اس میں آداب زندگی بھی ہیں
یہ بھی تو ہے فضیلت قرآں
اس کو کونین میں ملی عظمت
جس نے پالی ہدایت قرآں
ساری دنیا کے علم سے نہ بنی
ایک بھی یارو آیت قرآں
سورۃ الفرقان کی آیت مبارکہ نمبر 30 میں ارشاد پروردگار ہو رہا ہے، "میری قوم نے اس قرآن علی کو ترک کر دیا ہے۔" رحمت العالمین حضرت محمد مصطفٰی ﷺ تدبر و تفکر کے ساتھ قرآن امر پڑھنے کی ترغیب فرماتے تھے۔
جب قرآن صامت کا تذکرہ ہوا ہے تو قرآن ناطق کا بھی ذکر ہونا ہے۔ کیونکہ محبوب خدا کی حدیث پاک ہے کہ ان دونوں سے متمسک رہنا ہی رحمت، مغفرت اور نجات ہے۔ ذرا پڑھیں۔ مولود کعبہ نے آغوش رسالت مآب میں پوچھا، کیا سناؤں: حضرت داؤدؑ کا زبور، حضرت موسیٰؑ کا توریت، یا حضرت عیسیٰؑ کا انجیل، جبکہ یہ سب آپ کے مولود ہونے سے 500-2500 سال قبل کی کتاب ہے۔ اور اپؑ نے ان انبیاء کرام سے بہتر سنایا، حضرت محمد مصطفٰی ﷺ سنا اور تعریف کہ۔ علیؑ نے اب پوچھا یا قرآن عجب و عدل سناؤں جو آپؐ پر آنے والی ہے۔ امام علیؑ نے سورۃ مومنون "قد افلح المو منون" پڑھ کر سنایا۔
قرآن کریم میں 114 سورۃ ہیں سورۃ فاتحہ سے سورۃ ناس تک۔ کیا ہمیں پانچ سورۃ یاد ہے۔ اس میں کتنی کتنی آیات ہیں اور کیا اس کے ترجمے و تفاسیر سے واقفیت ہے؟ پھر عمل و مقصدٍ نزول قرآن حکیم سے دوریاں بہر صورت واضح ہے!